ارنا رپورٹ کے مطابق، اس امریکی تجزیاتی ویب سائٹ نے ایران کیخلاف پابندیوں کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیکن ان پابندیوں نے حالیہ مذاکرات کے سامنے اندرونی مزاحمت کی سبب بنی ہے اور ایرانی جوہری منصوبوں کو محدود کرنے کی سفارتی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی ہیں۔
اسی طرح، روس کیخلاف امریکی پابندیوں نے ابتدائی طور پر اس ملک میں ڈی جی پی کی کمی کی سبب بنی لیکن ماسکو میں یہ حوصلہ افزائی پیدا کی کہ وہ نئی منڈیوں کی تلاش کرنے کامیابی حاصل کرے اور اس طرح پابندیوں کے بُرے اثرات دور ہوگئے اور کرملین اور ماسکو کو الگ تلگ کرنے کی مغربی کوششوں کو کمروز کرنے کے شراکت داروں کے تعلقات بڑھ گئے۔
لہذا، ایران اور روس کیخلاف امریکی پابندیوں نے غیر ارادی طور پر ایران اور روس کو سلامتی اور معاشی شعبوں میں باہمی تعاون بڑھانے پر راغب کردی۔
میری لینڈ یونیورسٹی کے مرکز برائے سلامتی اور بین الاقوامی امور کے سروے کے نتایج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2021 میں ایران کے تین چوتھائی عوام، تہران کی جوہری سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ایران کا سیاسی ماحول اور پابندیوں کیخلاف اس کی زیادہ سے زیادہ مزاحمت نے روس کیلئے باہمی توانائی کے تعاون، ایک نئے براہ راست تجارتی راستے اور فوجی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے فائدہ اٹھانے کے لیے جگہ بنائی ہے جو پابندیوں کو روکتی ہے اور دونوں محاذوں پر امریکی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اس مضمون کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ روس کی ایران سے شراکت داری نہ صرف اس کو پابندیوں کیخلاف مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ روس کی سلامتی کے ذرائع کی بھی فراہمی کرتی ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور روس کے درمیان تعاون، حالیہ مہینوں میں مزید بڑھ گیا ہے اور دونوں فریقین نے حالیہ دنوں میں توانائی کے شعبے میں ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔
مغرب کی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے تہران اور ماسکو کی باہمی شرکت داری کا پختہ عزم، امریکہ اور مغرب کے مفادات کیخلاف- بالخصوص مشرق وسطی۔ میں ایک سنجیدہ خطرہ ہوسکتا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ